قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ
حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں وہ کھانا تم لوگوں پر نازل کرنے والا ہوں، پھر جو شخص تم میں سے اس کے بعد ناحق شناسی کرے گا تو میں اس کو ایسی سزا دوں گا کہ وہ سزا دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہ دونگا (١)
ف 3 علما کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ خوان اترا یا نہیں ؟ اکثر علما کا قول یہ ہے کہ وہ اترا اور یہی بات صحیح بھی ہے۔ (شوکانی) لیکن نظم قرآن دونوں کو متحمل ہے کسی ایک معنی میں صاف نہیں رہی حدیث غمار جس میں ہے کہ مائدہ نازل ہوا سواس کا وقف صحیح ہے۔ ترجمان) باقی رہے یہ کوائف کہ خوان کیسے اترا، کتنا بڑتھا اور اس پر کون کون سے کھانے تھے تو اس بارے میں کوئی بات صحت کے ساتھ ثاتب نہیں (قرطبی) ف 4 یہ عذاب دنیا میں بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ حضرت عمار کے حدیث میں ہے کہ خوان کے اتر نے کے بعد انہوں نے ناشکری اور خیانت کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا۔ (دیکھئے آیت 78) اور آخرت میں بھی جیسا کہ عبد اللہ بن عمر نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن سے سے سخت عذاب ہو (1) منافقین (2) اصحاب مائدہ میں سے جنہوں نے کفر کیا، اور (3) آل فرعون دیکھئے نسا آیت 145 (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب اپنے فوائد میں لکھتے ہیں شاید حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی اس دعا کا اثر ہے کہ اس کی امت آسودگی مال ہمیشہ رہی اور جوئی ان میں ناشکری کرے تو شاید آخرت میں سب زیادہ عذاب پاوے اس میں مسلمانوں کے لیے عبرت ہے کہ اپنا مد عا خرق عادت کی کی راہ سے طلب نہ کریں کیونکہ اس کی شکر گزاری بہت مشکل ہے اسباب ظاہری پر قناعت کریں تو بہتر ہے اس قصہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ حق تعالیٰ کے آگے حرایت کی پیش نہیں جاتی۔ (ماخوذاز مو ضح)