مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
اللہ تعالیٰ نے نہ بحیرہ کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو (١) لیکن جو لوگ کافر ہیں وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے۔
ف 7 اوپر کی آیتوں میں ایسی باتوں کے متعلق کرید اور سوال سے منع فرمایا ہے جن کے لوگ مکلف نہ ہوں اب اس آیت میں ایسے امور اپنے اوپر لازم کرلینے سے منع فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازم نہ ہوں (کبیر) اہل عرب زمانہ جاہلیت میں بتوں کے نام پر جانور چھوڑدیتے پھر ان سے انتفاع حرام سمجھتے یہاں چارقسم کے جانور بیان کئے ہیں(1) بحیرہ۔ وہ اونٹنی جو پانچ بچے دے چکنے کے بعد چھٹی مرتبہ نہ بچے کہ جنم دیتی تو اس کا کان چیر کر چھوڑ دیتے۔(2) سائبہ وہ اونٹنی جو کسی بیماری سے شفا یاب ہونے یا کسی مراد کے کے پورا ہونے پر بطور نذرانہ بتوں کے نام پر چھوڑ دی جاتی۔(3) وصیلہ وہ بکری جو نر اور مادہ کو جنم دیتی تو نر کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور اسے وصیلہ کہتے(4) حام اسی نسل کشی کے اونٹ کو کہتے ہیں جس کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہوجاتے اسے بھی بتوں کے نام پرکھلا چھوڑ دیتے تفاسیر میں ان کی دوسری تشریحات بھی مذکور ہیں۔ (ابن کثیر، کبیر)