يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی (١) سوالات گزشتہ اللہ نے معاف کردیئے اور اللہ بڑی مغفرت والا بڑے حلم والا ہے۔
ف 3 یعنی بلا ضرورت سوال کرو گے اور تمہاری مصلحت کے خلاف اس کا حکم اتر آیا ہے تو خواہ مخواہ مشکل میں پڑ جاو گے اور پھر بجا نہ لانے کی صورت میں اللہ اور اسکے رسول کے نافرمان قرار پاؤگے۔ ف 4 اور اسی طرح تم بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر فرض قرار دے لوگے اس بنا پر متعدد روایات میں آنحضرت (ﷺ)نے کثرت سوال سے منع فرمایا ہے ایک موقع پر آپ (ﷺ) نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس کے سوال کے سبب کوئی ایسی چیز حرام ہوگئی جو پہلے حرام نہ تھی۔ (دیکھئے بقرہ آیت 108۔ (ابن کثیر) ف 5 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور معافی ہے کہ اس نے ان چیزوں کو بیان نہیں کیا اور تمہا رے لیے ان کے ذکر نے اور نہ کرنے کی گنجائش باقی چھوڑدی (کبیر۔ ابن کثیر )