يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو (١) اور حد سے آگے مت نکلو، بیشک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
ف 4 نقض عہود کے سلسلہ میں یہود و نصاری سے مباحثہ کے بعد اب اصل موضوع کی طرف پھر تو جہ کی ہے یعنی کہ اوفو ابا لعقود کی تشریح جو اس سورۃ کا اساسی موضوع ہے (قرطبی۔ کبیر) رہبان نصاریٰ کی مدح کے بعد طیبات کی تحریم سے ممانعت یوں بھی انسب ہے کہ انہوں نے ان با توں کو نیکی میں داخل کررکھا تھا لہذا مومنین کو منع فرمادیا، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جو چیز شروع میں صاف حلال ہو اس سے پر ہیز کرنا برا ہے یہ دو طرح سے ہوتا ہے یاک زہد سے یہ رہبانیت ہے جو ہمارے دین میں پسند یدہ نہیں ہے اس کی بجائے تقویٰ اختیار کیا جائے یعنی ممنوع چیز کے قریب نہ جائے دوم یہ کہ کسی مباح کام کے نہ کرنے کی قسم کھالے یہ بھی بہتر نہیں ہے اسے چاہیے کہ قسم توڑے اور کفارہ ادا کرے۔ ( از موضح) ایک مرتبہ چند صحابہ حضرت عائشہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے دریافت کیا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب گھر میں ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں حضرت عائشہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معمولات بتائے ان میں سے وکئی کہنے لگا کہ میں کبھی گوشت نہیں کھاو گا کوئی کہنے لگا کہ عورتوں سے کوئی واسطہ نہ رکھو گا کوئی کہنے لگا کہ میں رات کو بستر پر نہ سووں گا یعنی ساری رات قیام کروں گا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگوں کو کیا گیا ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں حلانکہ میں یہ سب کام کرتا ہوں لہذا جس نے میری سنت سے بے رغبتی کا مظاہر کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں (بخاری مسلم) اس سلسلہ میں میں اور بھی بہتر سی روایات ہیں جن میں سے بعض میں یہ تصریح ہے کہ یہ آیت ایسے ہی کیس موقع پر نازل ہوئی ( ابن کثیر)