وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔
ف 1 یعنی وہ روتے ہیں سَمِعُواْکی ضمیر ان علما ورہبان کی طرف پلتی ہے جو ان میں سے مسلمان ہوگئے تھے حضرت ابن عباس (رض) اور عبد اللہ بن زبیر (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ قصہ یہ ہے کہ کچھ مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ کے عیسائی بادشاہ اصحمه نجاشی کے پاس چلے گئے کفار مکہ نے باشاہ کو اکسایا کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی اہانت کرتے ہیں اور ان کو عبد (غلام) کہتے ہیں اس پر نجاشی نے مسلمانوں کو اپنے در بار میں بلایا اور منجملہ دوسرے سوالات کے ایک سوال حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے متعلق بھی کیا اس پرحضرت جعفر (رض) طیار نے سو رہ مریم ( علیہ السلام) پڑھ كر سنائی تو نجاشی نے سن کر کہا کہ بعینہ یہی چیز انجیل میں ہے اور وہ رونے لگا (کبیر، ابن جریر) سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے ذریعے نجاشی نے نبی (ﷺ) کو اپنے اور اپنی قوم کے اسلام لانے کی اطلاع دی تھی یہ ستر۔ اور بعض روایات کے مطابق تیس۔ آدمی تھے جو آنحضرت (ﷺ) کی خد مت میں حاضر ہوئے تو آپ (ﷺ) نے ان کے سامنے سورت یٰس تلاوت فرمائی جسے سن کر وہ رونے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ( ابن جریر) مگر یہ آیت عام ہے اور اس صفت کے ساتھ جو بھی متصف ہو وہی اس کے مصداق بن سکتے ہیں (ابن کثیر ) ف2یعنی آنحضرت (ﷺ) کی امت میں داخل فرما (دیکھئے سورت بقرہ 143) یا یہ کہ انبیا اور مومنین جو توحید کی گواہی دیتے ہیں ان کی جماعت میں شمار فرما (کبیر)