قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ
آپ کہہ دیجئے اے یہودیوں اور نصرانیوں! تم ہم میں سے صرف اس لئے دشمنیاں کر رہے ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہماری جانب نازل کیا گیا ہے جو کچھ اس سے پہلے اتارا گیا اس پر ایمان لائے ہیں اور اس لئے بھی کہ تم میں اکثر فاسق ہیں۔
( ف 4 یعنی پہلی کتابوں پر جیسے تورات، زبور اور انجیل و غیرہ مطلب یہ ہے کہ تما جانتے ہو کہ ہمارا ایمان ان ہی چیزوں پر ہے جنہیں تم بھی صحیح مانتے ہو پھر ہم سے کیوں دشمنی کرتے ہو یہاں استفہام برائے تعجب ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہود کا ایک گروہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کن پیغمبروں کو سچامانتے ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منجلہ دوسرے پیغمبروں کی حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کا نام بھی ذکر فرمایا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی رسالت سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ پھر تو تمہارا دین بہت برا دین ہے (کبیر) ف 5 یعنی اصل بات یہ ہے کہ تم میں سے اکثر لوگ خاص اور بد کار ہیں اور تمہا ری ساری مذہبی اجارہ داری گروہی تعصب اور غلط قسم کی روایات پر قائم ہے اس لیے تم اپنے علاوہ کسی دوسرے میں بھی کوئی اچھی بات دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہاں فسق سے مراد فسق فی الدین ہے یعنی مذہبی روایات کے نقل کرنے میں عدول نہیں ہو (کبیر )