وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کردی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ بدلے آنکھ اور ناک بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے (١) پھر جو شخص اس کو معاف کر دے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق نہ کریں، وہ ہی لوگ ظالم ہیں۔ (٢)
ف 5 اس آیت میں بھی یہود کوتوبیخ ہے یعنی انہوں نے جس طرح رجم (سنگساری) کے حکم کو تبدیل کردیا تھا اسی طرح ان پر نفوس اور جر دح میں برابر رکھی گئی تھی جواب بھی تورات کی کتاب خروج باب 21 آیت 23۔25 میں موجود ہے مگر انہوں نے اس کو تبدیل کر کے معطل کر ڈالا اور عملا اس کی خلاف ورزی کر کے ظالم بن گئے آنحضرت (ﷺ) کے زمانے میں یہو دی قبائل میں سے بنی نضیر طاقتور اور بنو قریظہ کمزور تھے اس لیے یہوی بنو نضیر کا قصاص تو بنونضیر سے نہ لیتے تھے۔ (ابن کثیر۔ کبیر) اس آیت کے مشمولات کے حجت ہونے پراجماع ہے پس عورت کے بدلے مرد قتل کیا جائے گا چنانچہ آنحضرت (ﷺ) نےعمر و بن حزم کو جو کتاب لکھ کر بھیجی اس میں یہ حکم بھی لکھا کہ عورت کے بدلے مرد کو قتل کیا جائے۔ اور دوسری حدیث میں ہے (الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ) کہ مسلمانوں کے خون کے برابر ہیں۔ جمہور علما ٔکا یہی مسلک ہے احناف نے آیت کے عموم کے تحت کافر اور غلام کے بد لے مسلمان كو قتل کرنے کا حکم ثابت کیا ہے مگر صحیحین کی حدیث میں ہے(لا يُقْتَلَ مُسْلِمٌ بكافِرٍ) کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے اور متعد آثار سے ثابت ہے غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ بنابریں ان دونوں مسئلوں میں جمہور علما نے احناف کی مخالفت کی ہے بلکہ امام شافعی (رح) نے احناف کے خلاف اجماع نقل کیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 6 حدیث میں بھی ہے کہ جس مسلمان کو دوسرے سے جسمانی اذیت (زخم) پہنچے اور وہ اسے معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس بدولت ایک درجہ بلند کرتا ہے او رایك گناہ کم کرتا ہے (ترمذی ابن ماجہ )