سورة المآئدہ - آیت 44

إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت و نور ہے یہودیوں میں (١) اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے (انبیاء علیہ السلام) (٢) اور اہل اللہ اور علماء فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاظت کا حکم دیا گیا تھا (٣) اور وہ اس پر اقراری گواہ تھے (٤) اب تمہیں چاہیے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے سے مول نہ بیچو (٥) اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ (پورے اور پختہ) کافر ہیں۔ ( ٦)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 آیت میں بما استحفظو کی با کا تعلق الریا یو ن والا حبار سے ہے مطلب یہ ہے کہ جس زمانے میں کوئی نبی نہیں ہوتا تھا ویہ درویش اور تعلیم یافت لوگ یہودیوں کے مابین تورات کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے کیونکہ انبیا ( علیہ السلام) نے انہی کو اللہ تعالیٰ کی کتاب تورات کا محافظ قرار دیا تھا اور ان کی ذمہ داری تھی کہ اس میں کو تحریف نہ ہونے پائے اور شھدآ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ تورات کے من عند الہ ہونے پر گواہ تھے بعض علما نے بما اتحفظوا کی با کا تعلق یحکم سے بیان کیا ہے کہ اللہ کی کتاب کی جو امانت ہ ان کے سپرد کی گئی تھی وہ اس کے مطابق فیصل کرتے تھے۔ ّ(قرطبی، کبیر) یعنی تم بھی اپنے انبیا اور بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تورت میں کوئی تحریف نہ کرو اور حق پر چلتے ہوئے تورات میں کوئی تحریف نہ کرو اور حق بات کہنے اور محمد ﷺ کے جو حالات اس میں مذکور ہیں ان کے بیان کرنے میں لوگوں کو پر واز کرو اور صرف میرے انتقام اور عذاب کا ڈر اپنے دلوں میں رکھو (کبیر) ف 3 حضرت حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ حکام پر اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں لازم کی ہیں خواہش کی پیرو کی نہ کریں صحیح ٖفیصلہ کرنے میں کسی کی پروانہ کری ن اور رشوت لے کر غلط فیصلہ کریں ،(قرطبیف 4 یہ خطاب یہود سے ہے یعنی جب یہ عمد وتورات کے فیصلے کو چھپاتے ہیں اور اس پر عمل کرنا نہیں چاہتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ باوجود زبانی دعوی ٰ کرنے کے درحقیقت یہ کافر ہیں مگر آیت کے الفاط عام ہیں مسلمان حاکم پر کفر کا فتوی اسی وقت لگا سکتے ہیں جب وہ قرآن و حدیث کا انکار کرکے ان کے خلاف فیصلہ صادر کرے ایسے شخص کے کافر ہونے میں کچھ شبہ نہیں ہوسکتا اگلی آیات میں ایسے شخص کو ظالم اور فاسق بھی قرار دیا گیا۔ ( قرطبی)