وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو (١) ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا، ان میں سے ایک کی نذر قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی (٢) تو کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا، اس نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔
ف 3 اوپر کی آیات میں یہ بیان فرمایا تھا کہ مخالفین ہر طرح سے مسلمان پر مصائب وشدائد لا نا چاہتے ہیں (وھمو ان یبسطوا الیکم الخ) مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے مسلمانوں کی حفاظت کررہا ہے اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو تسلی دینے کے لیے کچھ واقعات بیان فرمائے جن سے یہ ثابت کرنا مقصو ہے کہ جس شخص کو بھی اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی نعتوں سے نوا زا ہے لوگ اس سے ہمیشہ حسد وبغض سے پیش آتے رہے ہیں چنانچہ یہود ونصاری کی مخالف بھجی ان کے تمرد اور حسد وبضض پر منبی ہے فلا تاس علی القوم الفا سقین لہذا ان پر افسوس اور غم نہ کیجئے اب یہاں ابنی ادم کا قصہ بیان کیا ج و اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے کیونکہ ایک بھائی کا دسرے کو قتل کرنا حسش کی بنا پر تھا۔ الغرض ان جملہ واقعات ان جملہ واقعات سے آنحضرت کو تسلی دینا مقصود ہے اور ہو سکتا ہے کہ بتانا مقصود ہو کہ یہود اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کے محبوت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ( نحن ابنا اللہ واحبنا ہ) اور انبیا کی اولاد ہونے پر ان کو فخر ہے مگر کفر اروحسد وعنادے ساتھ یہ نسبی شرف ان کے لیے مفید نہیں ہوسکتا اور آدم کے دو بیٹوں کا قصہ اس پر شاہد ہے (کبیر۔ قرطبی) اس سے مقصد تحذیر عن الحسد ہے حسن بصری (رح) فرماتے ہیں کہ یہ دونوں آدمی بنی اسرائیل سے تھے یہود کا حسد بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ٰٗ نے بطور مثال یہ واقعہ بیان کیا ہے جیسا کہ من اجل ذلک کتبنا الایہ کی تفریع اس پر دال ہے (کبیر۔ قرطبی) بالحق یعنی یہ کوئی باطل قصہ یا افسانہ نہیں ہے بلکہ امر واقعی ہے (کبیر) ف 4 یہاں تقوی ٰ سے مراد شرک سے بچنا ہے کیونکہ معاصی گناہ قبولیت عمل کو مانع نہیں ہوتے اس پر اہلسنت کا اجما ہے (قرطبی)