سورة الفاتحة - آیت 7

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا (١)۔ ان کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کا۔ (2)

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف10 :بہکنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ازراہ جہالت صحیح راستہ سے بھٹک گئے ہوں اور’’ جن پر غصہ کیا گیا‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے جان بوجھ کر صحیح راستہ اختیار نہ کیا ۔ایک مرفوع حدیث میں نصاری کو’’ ضَالِّينَ ‘‘ اور یہود کو’’ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ‘‘قرار دیا گیا ہے متعدد آیات میں بھی اس کی تا ئید ہوتی ہے (ابن کثیر) اور یہی تفسیر صحا بہ اور علماء تفسیر سے منقول ہے (فتح البیان) مسئلہ: تفسیر درمنثور میں ہے کہ جبر یل نے آنحضرت (ﷺ) کو فاتحہ الکتاب پڑھائی تو آخر میں کہا کہ آمین کہیے اس پر آنحضرت (ﷺ) نے آمین کہی۔ فائدہ: آمین کے معنی ہیں ہماری دعا قبول فرما، سورت فاتحہ میں ’’ وَلَا الضَّالِّينَ ‘‘کے نون کے بعد آمین کہنا مستحب ہے جہری نمازوں میں امام اور مقتدی دونوں کا بآواز بلند آمین کہنا متعدد احادیث سے ثابت ہے، حضرت ابوہریرہ (رض)سے روایت ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا: جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو اس لیے کہ جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے ایسے ہی حضرت وائل بن حجر (رض)سے روایت ہے کہ آنحضرت (ﷺ)’’ وَلَا الضَّالِّينَ ‘‘کے بعد آواز سے آمین کہتے تھے (ترمذی) مسئلہ :سنت طریقہ یہ ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر قرأت کرے ام سلمہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت (ﷺ) ہر آیت کو الگ الگ پڑ ھا کرتے تھے مثلا İاالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَĬ پر ٹھہر جاتے پھرİ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِĬ پڑھتے اور ٹھہر جاتے (ترمذی) یہ سورت اللہ تعالیٰ نے بندوں کو زبان سے فرمائی ہے ( مو ضح)