وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے دوست ہیں (١) آپ کہہ دیجئے کہ پھر تمہیں تمہارے گناہوں کے باعث اللہ کیوں سزا دیتا ہے (٢) نہیں بلکہ تم بھی اس کی مخلوق میں سے ایک انسان ہو وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب کرتا ہے (٣) زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
ف 7 حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ یہود کی ایک جماعت کو اسلام کی طرفک دعوت دی اور ان کو عذاب الہیٰ سے ڈارایا اس پر ہو کہنے لگے کہ تم ہمیں اللہ کے عذاب سے کیسے ڈراتے ہو ہم تو اللہ تعالیٰ ٰٗ کے بیٹ اور اس کے محبوب ہیں، چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انجیل میں ہے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) نے نصاری ٰ سے کہا میں اپنے اور تمہارے باپ کے پاس جاتا ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں گروہ اللہ تعالیٰ کے ابنا اور احبا ہونے کے مدعی تھے بعض نے یہاں مضاف محذوف مانا ہے ای نحن ابنا رسل اللہ واحباہ، حاصل یہ ہے کہ اہل کتاب اپنے آپ کو دوسروں سے فائق سمجھتے ہیں اور ان کا دعویٰ تھا کہ ہمارے اسلاف کی وجہ سے ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ قرآن نے ان کی تردید کی (قرطبی، کبیر) ف 8 یعنی یہ قانون ہے کہ گناہ کریگا اسے سزا ملے گی اور جس کے عمل نیک ہوں گے اسے انعام ملے گا جس طرح دوسرے لوگوں پر نافذ ہوگا تم پر بھی نافذ ہوگا پھر تمہاری ایسی کونسی خصوصیت ہے جس کی بنا پر تم اپنے آپ کو اس کے بیٹے اور چہتیے کہتے ہو (ابن کثیر، قرطبی) ف 9 اس میں یہود یوں کے لیے تبنہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے آخرکار تمہیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے وہاں تمہاری جو بھی سزا ہوگی تمہیں مل کر رہے گی لہذ اتم اب بھی اپنی بداعمالی سے باز آجاو (ابن کثیر، شوکانی)