وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا، اس لئے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گہیوں مسور اور پیاز دے آپ نے فرمایا بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو! اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی (١)۔ ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے (٢) یہ اسلئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے نبیوں کو ناحق تنگ کرتے (٣) تھے، ان کی نافرمانیاں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے (٤)۔
ف 1 من اور سلوی دونوں کی طعام واحد ایک کھانا قرار دینا اس بنا پر ہے کہ روزانہ یہی کھاتے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوتی یہ ان پر اللہ تعالیٰ نعمت تھی مگر ان بد بختوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اران سے کمتری چیزوں کا مطالبہ کرنے لگے حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ مصر میں جس قسم کی چیزوں کے عادی تھے وہی طلب کرنے لگے۔ (ابن کثیر) ف 2 یہ اں مصرا کا لفظ متصرف اور تنوین کے ساتھ ہے کیونکہ مصاحف عثمانیہ کے رسم الخط میں الف موجود ہے لہذا اس سے مراد کوئی ایک شہر ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی یہی تفسیر کی ہے بعض نے مصر فرعون مراد لیا ہے۔ (ابن کثیر) ف 3 عضب بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ بعض علماء نے اس کی تاویل کی ہے اور اس سے ارادہ عقوبت یا نفس عقوبت مراد لی ہے (قرطبی) مگر سلف صالح کا اس پر اتفاق ہے کہ صفات الہی کو بلا تاویل ماننا صروری ہے۔ ( جامع البیان) ف 4 حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اشد الناس عذابا یوم القیامتہ رجل قتلہ نبی اوقتل نبیا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس شخص کو ہوگا جسے نبی قتل کر ڈالے یا وہ نبی کو قتل کر ڈالے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بد بخت لوگ ایسے بھی ہیں جن کے ہاتھ سے نبی قتل ہوسکتا ہے۔ ف 5 یہود اپنی نافرمانی اور سر کشی میں اس حدی تک بڑھ گئے تھے کہ وہ آیات الہی کے انکار اور انبیاء کے قتل سے بھی باز نہ رہے احکام الہی کو سمجھنے کے با وجود بدل ڈالتے اور انبیاء کے قتل کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ وہ روزانہ بہت سے انبیاء کو قتل کر ڈالتے۔ جن انبیاء کو انہوں نے قتل کیا ان میں شعیا، زکریا، اور یحیی جیسے جلیل القدر انبیاء تک شامل ہیں۔ (ابن کثیر) اس کی سزا اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ دی کہ ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی وہ جہاں کہیں رہے۔ دوسروں کے غلام بن کر رہے اور بعض اوقات انتہائی مال دار ہونے کو باوجود انہوں نے ذلیل و خوار ہو کر زند گی بسر کی اگر کبھی دنیا میں انہیں امن چین نصیب ہوا بھی اور ان کی برائے نام حکومت قائم ہوئی تو اپنے بل پوتے پر نہیں بلکہ دوسروں کے سہارے پر۔