يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
آپ سے دریافت کرتے ہیں ان کے لئے کیا کچھ حلال ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تمام پاک چیزیں تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں (١) اور جن شکار کھیلنے والے جانوروں کو تم نے سدھار رکھا ہے، یعنی جنہیں تم تھوڑا بہت وہ سکھاتے ہو جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھی ہے (٢) پس جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو تم اس سے کھالو اور اس پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرلیا کرو (٣) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔
ف 10 مواشی کا حکم تو فرمادیا۔ پھر لوگون نے اور چیزوں کو پوچھا تو فرمایا ستھر چیزیں تم کو حلال ہیں۔ سو حضرت ﷺ جو چیزیں منع فرمائیں معلوم ہوا کہ وہ ستھری نہیں جیسے پھاڑنے والا جانور مثلا شیر چیتا باز یا چیل اور اس میں داخل ہوئے مردرار خوار سارے کو 3 وغیرہ اور جسئے گدھا اور خچر اور جیسے کیڑے کے مثلا چوہا وغیرہ (از موضح) ف 11 شکاری جا نور سے ہر وہ درندہ یا پرندہ مراد ہے جس کا شکار کے لیے رکھا اور سدھا یا جاتا ہے اور اس کے سدھائے ہوئے ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اس کو پانے مالک کے لیے پکڑے اگر وہ شکار پکڑ کر خود کھانے لگے تو اس کا شکار کھانا درست نہیں ہے اور یہی معنی مما امسکن کے ہیں حضرت عدی (رض) نبی ﷺ یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر اسے (یعنی شکاری کتے کو) چھوڑ تے وقت تم نے اللہ کا نام لیا ہے تو اسے کھا و ورنہ مت کھا و اور اگر اس نے شکار سے کچھ کھالیا ہے تو بھی نہ کھا و کیونکہ اس نے دراصل وہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے (بخاری )