يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے (١) اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو (٢) پس اگر بہن دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا (٣) اور کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے (٤) اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔
ف 5 سورت کی ابتدا احکام اموال سے ہوئی تھی اب آخرت انہی احکام کے ساتھ سورت کے ختم کیا جارہا ہے درمیان سورت میں مخالفین سے مجادلہ اور ان کی تردید ہے (رازی) کلالہ پر بحث آیت 11 میں گزر چکی ہے، بخاری ومسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوا اور بیہوش تھا َ نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے آپﷺ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچے ہوئے پانی کے میرے منہ پر چھینٹے دیئے۔ جس میں مجھ ہوش آگیا میں نے عرض کی میں کلالہ میری میراث کیسے تقسیم ہوگی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن جریر) ف 6 بعض علمانے اس سے استدلال کیا ہے کہ جن کی اولاد نہ ہو خواہ اس کا باپ زندہ یہہو اسے کلالہ کہ جائے گا مگر جمہور علمائے کے نزدیک اس یہ ہے من لا ولد لہ الا والد کہ جس کی نہ اولاد ہو اور با نہ باپ اس لیے تشریح میں نہ باپ کا لفظ بڑھا دیا ہے۔، مزید دیکھئے آیت 11 (ابن کثیر) ف 7 یہا بہن سے عینی یا علاتی بہن صرف باپ کی طرف سے) مراد ہے کیونکہ اخیافی بہن ( جو صرف ماں کی طرف سے ہو) کا حکم سے پہلے گزرچکا ہے۔ (ان کثیر) ف 8 ولد کا لفظ بیٹا بیٹی پر بولا جاتا ہے۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ بیٹی صورت میں بہن محرم رہیگی حضرت ابن عباس (رض) امام داود ظاہر اور علما کی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے لیکن اکثر صحابہ تابعین اور بع کے اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ بیٹی کی موجودگی میں بہن بحیثیت حصہ اپنا حصہ لے گی جیساکہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضرت معاذ (رض) نے بیٹی کو نصف اور باقی بہن و بطور عصبہ یا۔ اور دوسری صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود بیٹی کو نصف پوتی کو سد میں اور باقی ماندہ بہن کردیا۔ یہاں ولد سے مراد صرف لڑکے ہیں (شوکانی ) ف 1 اور یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا ہے۔ (شوکانی )