سورة النسآء - آیت 137

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور پھر گئے، پھر ایمان لا کر پھر کفر کیا، پھر اپنے کفر میں بڑھ گئے اللہ تعالیٰ یقیناً انہیں نہ بخشے گا اور نہ انہیں راہ ہدایت سمجھائے گا۔ (١)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 ان لوگوں سے مراد جیسا کہ آیت کے ترجمہ سے ظاہر یہود ہیں اور ان کے زیادہ کفر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کفر پر قائم رہے اور کفر ہی حالت میں مرے کیونکہ کفر کا یہی وہ درجہ ہے جس کی کشش نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی شخص تائب ہوجائے اور ایمان لے آئے تو اس کے تمام گناہ بخشے جاتے ہیں۔ بشر طیکہ اس کے اسلام میں احسان ہو یعنی ثابت قدم رہے اور دوبارہ کفر کا ارتکاب نہ کرے، حدیث میں ہے صحابہ کرام (رض) نے آنحضرت (رض) سے سوال کیا اے اللہ کے رسول ﷺ کی ان اعمال پر مواخذہ ہوگا جو ہم نے جاہلیت میں کئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام لانے کے بعد احسان سے کام لیا اس سے تو مواخذہ نہیں ہوگا۔ مگر جس نے دوبارہ کفر کیا۔ تو وہ تمام گناہوں میں پکڑا جائے گا۔ بعض مفسرین نے ان لوگوں سے منافق مود لیے ہیں جنہوں نے ایمان وکفر کو کھیل بنا رکھا ہے جب ترنگ آئی ایمان لے آئے جب دماغ میں دوسری لہر اٹھی کافر ہوگئے جب ادھر دغا دیکھا تو ایمان کا نعرہ بلند کودیا ہے اور دسری طرف مفاد دیکھا تو کافر ہونے کا اعلان کردیا۔ اس لیے ان کے متعلق فرمایا گیا کہ ان کی بخشش نہیں ہو سکتی، بعد میں منافقین کے ذکر کے ساتھ یہ انسب معلوم ہوتا ہے