وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ
اہل کتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آ جانے کے بعد ہی (اختلاف میں پڑ کر) متفرق ہوگئے (١)
ف 7 یعنی ان کے محمد ﷺ پر ایمان نہ لانے کی وجہ ہرگز یہ نہ تھی کہ انہیں آپ کی صداقت میں شک تھا وہ تو سب نشانیاں اور بشارتیں جو پچھلی کتابوں میں آپ کے بارے میں بیان ہوئی تھیں، خوب اچھی طرح جانتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ آپ ہی پیغمبر آخر الزماں ہیں لیکن اس کے باوجود محض حسد اور عناد کی وجہ سے آپ کے بارے میں جدا جدا ہوگئے کوئی ایمان لایا اور کوئی اپنے کفر پر ڈٹا رہا۔ حسد اور عناد یہی تھا کہا آپ کی بعثت بنی اسماعیل میں کیوں ہوئی حالانکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء بنی اسرائیل میں آتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ معمولی درجہ کے مجرم نہیں ہیں بلکہ بڑے درجہ کے مجرم ہیں جو جانتے بوجھتے حق کو جھٹلا رہے ہیں۔