وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ
اور جس نے اپنے رب کا نام یاد رکھا اور نماز پڑھتا رہا۔
فوائد صفحہ ہذا ف 1 آیت کا یہی مطلب واضح ہے بعض مفسرین نے … جیسے عطار … نے لفظ ” تزکی“ کے لفظ سے یہ سمجھا ہے کہ اس آیت میں زکوۃ یعنی صدقہ فطر ادا کرنے پھر تکبیریں کنے اور پھر عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ مطلب لینا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ آیت مکی ہے حالانکہ صدقہ فطر اور عید کا حکم مدینہ میں دیا گیا ہے۔ (تنبیہ) اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبیر تکریمہ (یعنی نماز شروع کرتے وقت ” اللہ اکبر“ کہنا) فرض ہے اور یہی چیز حدیث میں نبی ﷺ سے ثابت ہے چنانچہ آپ کا ارشاد ہے :” نماز کی کنجی طہارت ہے، اس کی تحریم ” اللہ اکبر“ کہنا ہے اور اس کی تحلیل (کھولنا) سلام پھیرنا ہے۔“ (ابودائود۔ ترمذی وغیرہ من علی) حنفیہ نے محض یہ دیکھ کر کہ آیت میں ” اللہ کا نام لینے“ کا تو ذکر ہے، لفظ ” اللہ اکبر“ کا ذکر نہیں ہے۔ یہ مسئلہ نکالا ہے کہ نماز شروع کرتے وقت ” اللہ اکبر“ کہنا فرض نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا مطلق نام لینا جس سے اس کی تعظیم ظاہر ہوجاتی ہو کافی ہے البتہ ” اللہ اکبر“ کہنا سنت یا واجب قرار پائے گا۔ (تفسیر عثمانی) حالانکہ جس چیز کا آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ اس کو نبی ﷺ نے ” اللہ اکبر“ کا حکم دے کر مطلق سے مقید فرما دیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے نماز کو ” اللہ اکبر“ کے علاوہ کسی اور لفظ سے شروع کرنا ہرگز صحیح نہیں ہو سکتا۔ واضح رہے کہ حنفیہ کے نزدیک واجب کا لفظ فرض کے معنی میں نہیں ہے بلکہ وہ اس سے کم تردرجہ کی چیز ہے۔ کیونکہ وہ رہ جائے تو نماز کے آخر میں سجدہ سہو سے اس کی تلاف یہو جاتی ہے جبکہ فرض رہ جائے تو اسے ادا کئے بغیر اس کی کسی طرح تلافی نہیں ہو سکتی۔