وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن چھوڑے گا، وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی (١) اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہوگیا (٢)، اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
ف 3 مُرَاغَمًایہ مُرغم کی جمع ہے اور ہجرت کر کے نکلنے اور دار ہجرت پالینے کو مراغما اس لیے فرمایا ہے کہ جو شخص ہجرت کر کے نکلتا ہے گویا وہ تمام قریش کی ناک کو خاگ آلود کردیتا (قرطبی) اس آیت میں اگرچہ ان لوگوں کو مدینہ کی ہجرت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جو مکہ اور دسرے مقامات پر دارالکفر میں پڑے زندگی بسر کر رہے تھے اور ہجرت نہیں کر رہے تھے لیکن یہ آیت عام ہے اور متعد احادیث میں ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے۔ (فتح القدیر) عکرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ہجرت نہ کرنے کے بارے میں وعید نازل ہوئی تو جندع (رض) بن صمرۃ لیثی جو مکہ میں مستضعفین میں سے تھے بیمار تھے۔ چنانچہ انہوں نے حالت مرض میں سفر شروع کردیا حتی کہ تنعیم میں پہنچ کر انتقال کر گئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔، اسی طرح خالد (رض) بن حزام کے متعلق بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اورراستہ میں سانپ کے ڈسنے سے وفات پاگئے (قرطبی) فائدہ :ہجرت کے معنی ہیں دارالحرب سے دارالاسلام کی طرف منتقل ہونا، یہ آنحضرت (ﷺ) کی زندگی میں فرض تھی اور اس کی فرضیت تاقیامت باقی ہے جس ہجرت کو آنحضرت نے (لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ) فرماکر منسوخ فرمایا ہے وہ خاص مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت تھی اسی طرح اہل بدعت کی آبادی سے بھی ہجرت کرنا چاہئے امام مالک (رح) فرماتے ہیں کسی شخص کے لیے ایسے مقام پر رہنا جائز نہیں ہے جہاں سلف کو گالیاں دی جاتی ہوں۔ علی ہذالقیاس جس علاقہ میں حلال روزی نہ ملتی ہو یا دین میں فتنہ کا خوف ہو وہاں سے ہجرت کی بھی ترغیب آئی ہے۔ (قرطبی)