إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا
مگر جو مرد عورتیں اور بچے بے بس ہیں جنہیں نہ تو کسی کا چارہ کار کی طاقت اور نہ کسی راست کا علم ہے (١)۔
ف 1 اس آیت میں ان لوگوں کو مستثنی ٰ قرار دیا ہے جو واقعی بے بس اور معذور تھے اور ہجرت نہیں کرسکتے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں میں اور میری والدہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے اور ان لوگوں میں عیاش بن ابی ربیعہ ابن ہشام وغیر ہم بھی شامل ہیں جن کے حق میں آنحضرت (ﷺ) کفار کے پنجے سے نجات کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ (قرطبی، ابن کثیر) فائدہ :حضرت ابن عباس (رض) کی والدہ ام الفضل بنت حارث ہیں اور ان کا نام لبابہ ہے جو میمونہ(رض) بنت حارث ام المومنین کی بہن تھیں حارث نو بہنیں تھیں جن کے حق میں رسول اللہ (ﷺ) نے الا خوات المو منات فرمایا تھا، ان میں ایک اسما بنت عمیس خثعمیہ تھیں جو ماں کی طرف سے میمونہ (رض) کی بہن تھیں اور جعفر (رض) بن ابی طالب کی بیوی۔ جعفر (رض) کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے ان سے نکاح کرلیا اور حضرت ابو بکر (رض) کے بعد حضرت علی (رض) کے نکاح میں آگئیں (رض) (قرطبی) ف2 ہجرت کے ساتھ’’ فی سبیل اللہ‘‘ کا ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہجرت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا ہے جس شخص نے ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہے اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی غرض سے ہے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی (بخاری ومسلم )