يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللَّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ ۚ كَذَٰلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کرلیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں (١) تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں (٢) ہیں پہلے تم بھی ایسے ہی تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہذا تم ضرور تحقیق اور تفتیش کرلیا کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
ف 1 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص بکریاں چرارہا تھا کہ مسلمانوں کا ایک سریہ (دستہ) اس کے پاس سے گزرا۔ اس نے اسلام علیکم کہ الیکن مسلمانوں نے اسے قتل کر ڈالا اور اور اس کا مال لے لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری وغٖیرہ) چنانچہ آنحضرت ﷺ نے مقتول کے وارثو کے پاس اس کی دیت بھیج دی اور اس کی بکریاں بھی واپس کردیں۔ (بخاری وغیرہ) اس قاتل اور مقتول کے بارے میں اختلاف ہے یا حافظ ابن عبدالبر (رح) نے الا ستصاب میں نقل کیا ہے کہ قاتل محلم بن جثامہ اور مقتول عامر بن اضبط ہے۔ آنحضرت نے محلم کے حق میں بد دعا کی اور وہ اضبط ہے۔ آنحضرت ﷺ نے محلم کے حق میں بد دعا کی اور وہ ساتویں دن مرگیا اسے تین مرتبہ دفن کیا گیا جب بھی دفن کرتے زمین اس کی لاش باہر پھینک دیتی۔ آخر کار اسے کسی گھاٹی میں ڈال دیا گیا اور بعض روایات میں ہے کہ اس سریہ میں مقداد (رض) بن اسود تھے انہوں نے اس کو قتل کیا اس پر آپ ﷺ نے مقداد (رض) کو مخاطب کر کے فرمایا تم نے کیسے مسلمان کو قتل کر ڈالا نے الا الہ الا اللہ کا اقرار کیا کل اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کا کیا جواب دو گے محض کچھ مال غنیمت کے لالچ میں تم نے یہ اقدام کیا۔ (فتح القدیر) علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ یہ مختلف واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے ہوں اور سب کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی ہو (قرطبی، شوکانی) یہاں تبین یعنی تحقق کرلینے کا حکم سفر کے ساتھ خاص ذکر کیا ہے مگر یہاں سفر کی قید بیان کے لیے ہے یعنی یہ حادثہ جس کے متعلق آیت نازل ہوئی ہے سفر میں پیش آیا تھا ورنہ تحقیق کا حکم جس طرح سفر میں ہے اسی طرح حضر میں بھی ضروری ہے (قرطبی) ف 2 یعنی یہی حالت پہلے تمہاری تھی۔ تم کافروں کے شہر میں رہتے تھے اور اپنے ایمان کو چھپاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے دین کا غالب کر کے تم پر احسام کیا ( قرطبی)