وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا
اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے (١) اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
ف 7 قتل خطا کا حکم بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں قتل عمہد قصد قتل کرنے کا حکم بیان کیا ہے اس کا ایک حکم تو بیانب ہوچکا ہے یعنی اس صورت میں قصاص یا دیت واجب ہے۔ (یکھئے سورت بقرہ آت 17) یہاں صرف اس کے گناہ ارر وعید کا ذکر ہے متعدد آیات میں قرآن نے اس جرم کو شرباللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہاں فرمایا کہ ایسے شخص اللہ تعالیٰ کا غضب اور لعنت ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے جس میں سہ ہمیشہ رہے گا۔ اس بنا پر بعض علما نے سلف سے منقول ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی مگر اکثر علمائے سلف کے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ توبہ تو مشرک کی بھی قبول ہوجاتی ہے لیکن یہ توبہ اس وقت ہے جب اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کردے۔ (شوکانی) حدیث میں ہے کسی مسلمان کا خون صرف تین صورتوں میں سے ایک حلال ہے اس نے کسی کو قتل کردیا ہو اس کے بدلہ میں قتل کیا جائے یا شادی شدہ ہونے کے بعد جرم زنا کا ارتکاب کرے یا وہ اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے (بخاری) مزید دیکھئے سورت الفرقان آیت 68)