فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہ منافقوں میں دو گروہ ہو رہے ہو؟ (١) انہیں تو ان کے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اوندھا کردیا ہے۔ (٢) اب کیا تم یہ منصوبے بنا رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے گمراہ کئے ہوؤں کو تم راہ راست پر لا کھڑا کرو، جسے اللہ تعالیٰ راہ بھلا دے تو ہرگز اس کے لئے کوئی راہ نہ پائے گا (٣)
ف 1 یہ آیات کب اتریں اور ان میں منافقین سے مراد کون لوگ ہیں اس بارے میں صحابہ (رض) کرام سے مختلف روایات ہیں حضرت زید (رض) بن ثابت سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ غزوہ احد کے لیے نکلے تو کچھ لوگ آپﷺ کا ساتھ چھوڑ کر راستہ ہی سے واپس ہوگئے (ابن ابی اور ان کے ساتھی) اس کے بارے میں میں مسلمانوں کے دو گروہ ہوگئے ایک گروہ کہنے لگا کہ ہم انہیں قتل کریں اور دسرا گروہ اس کے خلاف تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہو (بخاری ومسلم) امام شوکانی فرماتے ہیں ؛ نزول کے اسباب میں یہ روایت سب سے اصح ہے۔ دوسری روایت حضرت عبدالرحمن (رض) بن عوف سے ہے کہ عرب کے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہوگئے پھر وہ بیمار ہو کر واپس چلے گئے۔ ان کے بارے میں مسلمانوں کے دوگروہ ہوگئے ایک گروہ انہیں منافق قرار دیتا تھا اور دوسرا مسلمان سمجھتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مکہ میں کچھ لوگ اسلام کا کلمہ پڑھتے تھے لیکن مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں مسلمانوں کی دو رائیں ہوگئی تھیں لہذا اس آیت میں ان منافقین کے مسلمان قرار پانے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا بطور شرط ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین نے حضرت ابن عباس (رض) کی تفسیر کی بقہ تمام تفا سیر پر تر جیح دی ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اہل افک کے بارے میں نازل ہوتی ہے (ابن کثیر، کبیر) آیت میں فئنین منصوب علی الحال ہے اور استفہام انکاری ہے۔ ( شوکانی )