وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا (١)
ف 4 اس کا تعلق بھی ترغیب جہاد سے ہے یعنی دو وجوہ کی بنا پر تمہیں کفار سے لڑنا ضروری ہے اول اعلائے کلمتہ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے دوم ان مظلوم مسلمانوں کے نجات دلانے کے لیے جو کفار کے چنگل میں بے بس پڑئے ہیں (قرطبی) مکہ معظمہ میں بہت سے ایسے لوگ رہ گئے تھے جو آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہجرت نہ کرسکے تھے اور ان کے تعارب ان پر تشدد کرنے لگے تھے نانہ اسلام سے پھیر کر ان کو پھر سے کافر بنا لیں پس القریتہ الظالم اھلھا سے مکہ مراد ہے۔ اور مشرک ہونے کی وجہ سے یا مظلوم مسلمانوں کی ستانے کی وجہ سے اس کے باشندوں کو ظالم فرمایا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں اور میر والدہ بھی ان بے بس مسلما نوں شامل تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے (رازی۔ ابن کثیر) مدینہ میں آنحضرت ﷺ ان مستضعفین کے حق میں نام لے لیکر دعا فرمایا کرتے تھے اللھم انج الوالید بن الولید وسلمتہ بن ھشام وعیاش بن ابی ربعیہ والمستضعفین من المو منین۔ یا اللہ ولید بن ولید بن ہشام، عیاش، بن ابی ربیعہ اور مکہ میں گھرے ہوئے دوسرے بے بس مسلمانوں کو رہائی دلا (بخاری )