سورة الملك - آیت 2

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 یعنی موت اور زندگی کا یہ سلسلہ جو دنیا میں چل رہا ہے اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ آدمی کے اعمال کا امتحان لیا جائے اور ایمان و اطاعت کے بعد یہ دیکھا جائے کہ کمال احسان کا درجہ کس میں پایا جاتا ہے اگر عمل اچھے ہوں گے تو آخرت میں ان کا اچھا اجر پائے گا اور اگر برے ہوں گے تو آخرت میں برا بدلہ پائے گا۔ موت و حیاۃ کا یہ سلسلہ بے مقصد نہیں ہے بلکہ آخروی شاہ صاحب لکھتے ہیں :” اگر مرنا نہ ہوتا تو بھلے برے کام کا بدلہ کہاں ملتا۔“ (موضح) ف 3 زبردست ہے یعنی اسے کوئی دوسرا اپنا فیصلہ نافذ کرنے سے نہیں روک سکتا اور بخشنے والا ہے یعنی جو شخص توبہ کرے اور اس کی طرف متوجہ ہو وہ اسے دوزخ سے بچا کر جنت میں داخل کرنے والا ہے۔