قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۖ رَّبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ
مسلمانو! تمہارے لئے حضرت ابراہیم میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے (١) جب کہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں (٢) ہم تمہارے (عقائد کے) منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے بغض و عداوت ظاہر ہوگئی (٣) لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوئی تھی (٤) کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں۔ اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے (٥) اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے،
ف 1 یعنی ہماری راہ توحید کو اختیار نہ کرو گے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھی اپنے شرک رشتہ داروں سے الگ ہوگئے تھے۔ اسی طرح تمہارا بھی یہ فرض ہے کہ اپنے مشرک رشتہ داروں سے کسی قسم کا تعلق رکھو۔ ف 2 یعنی اس قول میں حضرت ابراہیم کی پیروی جائز نہیں اور انہوں نے یہ وعدہ اس وقت کیا جب کہ حضرت ابراہیم کو معلوم نہ تھا کہ مشرک کے لئے مفغرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہوا کہ اللہ کے دشمن کے لئے مففرت کی دعا نہیں کی جاسکتی اور ان کا والد اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے الگ ہوگئے۔ دیکھیے (توبہ 114) ف 3 یعنی صرف درخواست کرسکتا ہوں نفع کو نقصان کا مجھے اتخیار نہیں ہے۔ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے وہ اگر چاہے گا تو میری درخواست قبول فرما کر تمہیں بخش دے گا اور نہ میں اس سے زبردستی تمہاری بخشش نہیں کر اسکتا۔