سورة الحشر - آیت 7

مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بستیوں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 یعنی اس کی تقسیم کے جو مصارف بیان کئے گئے ہیں وہ اس لئے ہیں کہ یتیموں، بیکسوں کی خبر گیری ہوتی رہے اور یہ محض دولت مندوں ہی کلٹ پھیر میں پڑ کر انہی کی جاگیریں کر نہ رہ جائے۔ ف 4 یعنی زندگی کے کسی معاملے کے متعلق آنحضرت کا جو حکم ہوا اس پر عمل کرو۔ اور جس سے آپ منع فرمائیں اس سے باز ہو۔ اس آیت نے آنحضرت کے حکم کو ایک مستقل تشریع کی حیثیت دی ہے اور اسے قرآن کی معوافقت کے ساتھ مقید نہیں فرمایا۔ لہٰذا آنحضرت کا جو حکم بذریعہ صحیح روایت ثابت ہوگا وہ واجب العمل ہوگا اور کسی حکم کے قرآن میں بالتصریح مذکور نہ ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ حکم قرآن کے خلاف ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود نیفرمایا : اللہ تعالیٰ نے افزائش حسن کے لئے ہاتھ گود نے مصنوعی بال لگانے اور فتوں میں سوراخ کرنیوالی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اس پر ایک عورت نے کہا کہ قرآن میں تو یہ مسئلہ نہیں ہے … حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا اگر تم نے واقعی قرآن پڑھا ہوتا تو وہ تمہیں ضرور مل جاتا کیا تم نے آیت ” وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا“ نہیں پڑھی اس نے جواب دیا کہ ” ہاں پڑھی ہے“ فرمایا تو اللہ کے رسول نے اس سے منع فرمایا ہے۔ (روح المعانی) ایک حدیث میں آنحضرت نے تصریح فرمائی ہے۔ ” سن رکھو ! مجھے قرآن ملا ہے اور اس کے ساتھ دیسی ہی ایک اور چیز یعنی سنت جس پر عمل کرنا بھی اسی طرح ضروری ہے۔