أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے؟ پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف فرما دیا (١) تو اب (بخوبی) نمازوں کو قائم رکھو زکوٰۃ دیتے رہا کرو اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہو (٢) تم جو کچھ کرتے ہو اس (سب) سے اللہ (خوب) خبردار ہے۔
ف 6 یعنی کیا ڈر گئے کہ ہمارا سارا مال ہی صدقہ میں خرچ ہوجائو گا؟ ف 7 یعنی صدقہ دینے کے حکم سے جو مقصد تھا وہ حاصل ہوگیا اس لئے ہم نے یہ حکم جو وقتی طور پر دیا گیا تھا منسوخ کردیا لیکن اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ ان احکام کو پوری پابندی سے بجا لاتے رہو جو کبھی منسوخ ہونے والے نہیں ہیں جیسے نماز زکوۃ اور ہر معامله میں اللہ رسول کی اطاعت اسی سے تزکیہ نفس ہوتا رہے گا۔İفَإِذْ لَمْ تَفْعَلُواĬ( تو خیر جب تم ایسا نہ کرسکے) سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینے کا یہ حکم بہت تھوڑی مدت رها اور عام مسلمانوں کے اس پر عمل کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی اس لئے بعض روایات میں حضرت علی (رض) فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی كتاب میں ایک آیت ایسی ہے جس پر نہ مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکے گا۔یعنی آیتİيَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً Ĭ میرے پاس ایک دینار تھا میں نے اسے دس درہموں میں فروخت کردیا۔ میں جب بھی رسول اللہ (ﷺ) سے علیحدگی میں گفتگو کرتا توایک درہم صدقہ کردیتا ۔پھر اگلی آیت سے یه آیت منسوخ ہوگئی اور کسی کو اس پر عمل کرنے کا موقع میسر نہ آیا۔ علما ئے تفسیر نے یہ قصہ نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم (شوکانی وغیرہ)