سورة الحديد - آیت 27

ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے درپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کردیا (١) ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے از خود ایجاد کرلی تھی (٢) ہم نے ان پر اسے واجب نہ (٣) کیا تھا سو اللہ کی رضا جوئی کے۔ (٤) سوا انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی (٥) پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے انہیں اس کا اجر دیا تھا (٦) اور ان میں زیادہ تر نافرمان لوگ ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 6 یعنی دنیا کو چھوڑ دینا، شادی نہ کرنا اور خلقت سے الگ ہو کر جنگلوں اور غاروں میں رہنا بسنا۔ ف 7 یعنی انہوں نے دو جرم کئے ایک رہبانیت درویشی کو دین کا جزو لاینفک قرار دے لیا اور پھر اس درویشی کے حقوق و آداب کی بھی نگہداشت نہ کرسکے۔ چنانچہ انہوں نے ابتداء میں توحید اور درویشی کو ایک ساتھ نبھانے کی کوشش کی لیکن حضرت مسیح کے تیسری صدی بعد سے اپنے بادشاہوں کے بہکانے میں آگئے۔ اور تثلیث کے جر میں پھنس کر توحید کہ چھوڑ دیا۔ پھر درویشی تو درکنار اصل ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ درویشی کو جاہ ریاست طلبی کا ذریعہ بنالیا اور ابطل طریقوں سے لوگوں کے مال کھانے لگے۔ القرض جہاد کے فریضہ لو چھوڑ کر تصرف کی رسوم اتخیار کرنا ہی رہبانیت ہے جس کی قرآن نے مذمت کی ہے اور پھر درویشی یا دینی پیشوائی کو جاہ و ریاست اور دنیا طلبی نصاریٰ میں عا مو باکی شکل اختیار کر گیا تھا۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ فقیری تا اور تارک دنیا بننا نصاریٰ نے رسم نکالی، جنگل میں تکیہ لگا کر بیٹھتے نہ جو رکھتے نہ بیٹا کماتے نہ جوڑے محض عبادت میں رہتے۔ نہ کرنے نہ جوڑتے محض عبادت میں رہتے۔ خلق سے نہ ملنے اللہ نے بندوسوں پر یہ حکم نہیں رکھا مگر جب اپنے اوپر نام رکھا ترک دنیا کا پھر اس پردے میں دنیا چاہنی بڑا وبال ہے۔ (موضع) ف 8 حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرماا : ایماندار رہنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو مجھ پر ایمان لائے اور بے ایمانی سے مراد وہ ہیں جنہوں نے مجھ سے کفر کیا۔