سورة الحديد - آیت 20

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشہ زینت اور آپس میں فخر (و غرور) اور مال اولاد میں ایک دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے، جیسے بارش اور اس کی پیداوار کسانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے پھر جب وہ خشک ہوجاتی ہے تو زرد رنگ میں اس کو تم دیکھتے ہو پھر وہ باکل چورا چورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں سخت عذاب (١) اور اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے (٢) اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5 یہ سچے اور مخلص اہل ایمان کے مقابلے میں دنیا دار لوگوں کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام خواہشوں اور دلچسپیوں کا ذکر ان پانچ باتوں میں فرمایا دیا ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں ” آدمی کو اول عمر میں کھیل چاہئے پھر تماشا پھر بنائو درست کرنا (یعنی بنئاو سنگھار کی فکر) پھر ساکھے کرنے اور نام حاصل کرنا (یعنی ساکھ بڑھانا اور نام و نمود حاصل کرنا اور جب مرنا قریب آوے تب فکر مال اور اولاد کا کہ پیچھے میرا گھر بنا رہے آسودہ یہ سب دغا کی جنس سے آگے کام آئے گا کچھ اور یعنی ایمان اور عمل صالح یہ کچھ کام نہ آوے گا۔“ ف 6 جیسے دنیا داروں کو ان کی جوانی اور مالداری خوش کرتی ہے۔ ف 7 یہی حال دنیاکی زندگی کا ہے۔ بس چند روز بہار ہے آخر زوال اور پھر فنا ہے۔ ف 1 جس نے دنیا سے دل لگایا وہ دھوکے میں پڑگیا اور اس نے اپنی آخرت تباہ کرلی۔ البتہ ایسے لوگوں کے لئے دنیا کی زندگی دھوکا نہیں ہے جنہوں نے اسے آخرت کا ذریعہ بنایا۔ آخرت کے ماقبلہ میں دنیا کی بے وقعتی کا ذکر بہت سی احادیث میں مذکور ہے۔