إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُولَٰئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے اللہ تعالیٰ بڑے علم والا حکمت والا ہے۔ ْ
ف 2 یہا علی اللہ کے معنی یہ ہیں کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے ذمہ لے لیا ہے رونہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز لازم نہیں ہے۔ (قرطبی) بحھالہ یعنی اگر کبھی نادانی اور جذبات سے مغلوب ہو کر گناہ کا ارتکاب کر بھی لیتے میں تو من قریب یعنی جلد ہی توبہ کرلیتے ہیں۔ بعض علما نے لکھا ہے کہ یہاں بجھالتہ کی قید احتراز کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ بیان واقعہ کے لیے ہے یعنی ہر گناہ جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے اور من قریب کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ع موت کے آثار مشاہدہ کرنے سے پہلے پہلے تائب ہوجاتے ہیں۔ ان دو شرطوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) توبہ کے شرائط کے لیے دیکھئے سورت مریم آیت 8۔