وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ
اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے (١)
ف 3 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور قدیم مفسرین سے یہ دونوں منقول ہیں۔ شاہ صاحب نے بھی اپنے فوائد میں بلا ترجیح دونوں نقل کئے ہیں ایک یہ کہ پہلے تمام انبیا(علیهم السلام) کے پیروں میں سے اعلیٰ درجہ کے لوگ ملا کر امت محمدیہ کے اعلیٰ درجہ کے لوگوں سے تعداد میں زیادہ ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ خود امت محمدیہ میں اعلیٰ درجہ کے لوگ پہلے بہت ہوں گے اور بعد میں کم۔ اس دوسرے مطلب کی تائید ابوبکرہ کی روایت سے ہوتی ہے کہ آنحضرت (ﷺ)نے فرمایا :( هُمَا جَمِيعًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةُ) کہ ان دونوں سے مراد اسی امت کے لوگ ہیں مگر یہ روایت اسناداً کمزور ہے اس لئے علماء تفسیر نے اس پر اعتماد نہیں کیا۔ پہلے مطلب کو ابن جریر طبری نے دوسرے مطلب کو حافظ ابن کثیر نے ترجیح دی ہے۔ ان کے علاوہ حافظ ابن کثیر نے ایک تیسرا مطلب بھی بیان فرمایا ہے کہ ہر امت کے پہلے طبقہ میں جتنے درجہ کے لوگ ہوئے ہیں اتنے اس کے بعد کے طبقہ میں نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث ” خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي “ سے معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم۔