وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا
جب تقسیم کے وقت قرابت دار اور یتیم اور مسکین آ جائیں تو تم اس میں سے تھوڑا بہت انہیں بھی دے دو اور ان سے نرمی سے بولو (١)۔
ف 8 یعنی ورثہ کو چاہئے کو مترو کہ مال میں سے کچھ حصہ بطور صدقہ وخیرات ان رشتہ داروں یتیموں اور مسکینوں کو بھی دیں جو خاندان میں موجود ہوں تقسیم کے وقت موقع پر پہنچ جائیں اوراگر یہ لوگ زیادہ کی حرص کریں تو نرمی سے ان سے بات کرو۔ یعنی معذرت کردو کہ یہ وارثوں کا مال ہے تمہار حق نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں فرائض یعنی ورثہ کے مقررہ حصے نازل ہونے سے پہلے یہ حکم تھا۔ فرائض نازل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے اب یہ بخشش نہیں ہے اور صدقہ و خیرات میت کی وصیت سے ہی ہوسکتا ہے۔ یہی مذہب جمہور فقہا ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین کا ہے لیکن بعض اب بھی کچھ صدقہ وخیرات کے قائل ہیں۔ چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور ورثہ کو حکم ہے کہ تقسیم تر کہ کے وقت رشتہ داروں سے صلہ رحمی کر کریں ( ابن کثیر۔ قرطبی)