وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی (١) یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ (٢)۔
ف 9 آیت کی شان نزول کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) عروہ بن زبیر (رض) کے ایک استفسار کے جواب میں فرماتی ہیں کہ بعض یتیم لڑکیاں لوگوں کے دامن پر ورش میں ہوتیں وہ ان لڑکیوں کے مال دار اور قبول صورت ہونے کی وجہ سے ان کے مال وجمال پر گرویدہ ہوجاتے اور ان سے نکاح کرلیتے لیکن ان کو اپنے گھر کی لڑکیاں سمجھ کر پرائے گھر کی لڑکیوں جیسا نہ تو مہر دیتے اورنہ ان کے دوسرے حقوق ہی ویسے ادا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا کہ اگر یتیم لڑکیوں سے تم ان کے مہر اور نفقات میں انصاف نہیں کرسکتے تو ان کے علاوہ تمہیں دوسری عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے۔ (قرطبی۔ شوکانی) اس آیت میں حضرت ابن عباس (رض) اور جمہور علمأ نے لکھا ہے کہ ایک شخص کے لیے بیک وقت چار سے زائد عورتیں اپنے حرم میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ سنت سے صراحت کے ساتھ یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں وھذالذی قالہ الشافعی مجمع علیہ بین العلماء غیلان بن سلمة الثقفی اور بعض دیگر صحابہ (رض) کے متعلق مذکور ہے کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے حرم میں چار سےزائد عورتیں تھیں۔ آپ (ﷺ) نے ہر ایک سے فرمایا (اختَرْ منهنَّ أربعًا )کہ ان میں سے صرف چار کا انتخاب کرلو اور باقی کو طلاق دیدو۔ امام قرطبی لکھتے ہیں رافضی اور بعض دیگر علمأ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ چار سے زائد بھی جائز ہیں۔ مگر یہ لغت اور سنت سے جہالت کا نتیجہ ہے۔ ان کے مقابلہ میں اسلام کے تعداد ازواج کے مسئلہ پر معاندین نے اعتراضات بھی کئے ہیں جن کے علما نے مسکت جوابات دیئے ہیں ف 10 یعنی قرآن نے انصاف نہ کرسکنے کے اندیشہ کی بنا پر ایک سے زائد بیو یوں سے شادی نہ کرنے کی تلقین کی ہے اور فرمایا ہے کہ ظلم سے بچنے کی یہ قریب ترین صورت ہے، بعض نےİ أَلَّا تَعُولُواْ Ĭ کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ تمہارے عیال زیادہ نہ ہوجائیں اور تم فقیر نہ ہوجا و مگر پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔( ابن کثیر )