كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بیشک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے (١)۔
ف 5 بخیلوں کا حال اور ان کا کفر بیان کرنے کے بعد یہاں بتایا کہ دنیا کے جس مال ومتاع کے جمع کرنے کے لیے انسان بخل کرتا ہے۔ یہ سب کچھ فانی اور نہ باقی رہنے والی چیز ہے اور آخرت کی زندگی ہی باقی اور ابدی ہے لہذا انسان کو چاہئے کہ آخرت کی فکر کرے اور اس میں کامیابی کے لیے کوشاں رہے۔ (قرطبی) اور یہ جو فرمایا کہ قیامت ہی کے دن پورے پورے بدلے دیئے جائیں گے۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کو دنیا یا برزخ میں بھی کچھ نہ کچھ اعمال کا بدلہ ملتا ہے مگر پورا پورا بدلہ، ثواب وعقاب۔ قیامت کے دن ہی ملے گا۔ ا س سے پہلے ممکن نہیں۔ (قرطبی۔ کبیر) اور دنیا کی زندگی مَتَاعُ ٱلۡغُرُورِہے اس کی ظاہری زیب وزینت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے لا عیش الا عیش الا خرۃ (ابن کثیر)