مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
جس حال میں تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک الگ الگ نہ کردے (١) اور نہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کر دے (٢) بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کرلیتا ہے (٣) اس لئے تم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھو اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ کرو تو تمہارے لئے بڑا بھاری اجر ہے۔
ف 3 یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ تمہیں براہ راست غیب پر مطلع کر دے اور اتم بروں کو اچھوں سے الگ پہچان لو بلکہ منصب رسالت کے لیے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے انتخاب فرماتا ہے اور اسے بذریعہ وحی اپنے غیب سے جتنی باتوں کا علم دینا چاہے دے دیتا ہے۔ (کذافی الروح) علم غیب پ ربحث کے لیے دیکھئے ( سورت انعام آیت 59) ف 4 قریش کے کافر اور مدینہ کے منافق کہتے تھے کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو نام بنام کیوں نہیں بتاتا فلاں مامن ہے فلاں کافر ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (قرطبی) فرمایا کہ تمہیں غیب کی باتوں سے کیا اسروکار۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے تمہارا کام تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی باتوں پر ایمان لانا اور اتقوی ٰ اختیار کرنا ہے تاکہ اجر عظیم کے مستحق قرار باو) وحیدی)