سورة آل عمران - آیت 173

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ لوگ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے میں لشکر جمع کر لئے ہیں۔ تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے (١)۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 یہ آیت بھی وقعہ حمرا الاسد ہی سے متعلق ہے اور وہ اس طرح کہ جب ابو سفیان کو۔ جو ان وقت مشرکین کی قیادت کر رہا تھا۔ مسلمانوں کے تعاقب کی اطلاع ملی تو اس نے ایک تجارتی قافلہ کے ذریعہ آنحضر ﷺ کو یہ چلینج بھیجا کہ میں نے بڑا لاو لشکر جمع کرلیا ہے اور میں مدینہ پر پھر سے حملہ کرنے والا ہوں۔ یہ سن کر مسلمانوں میں خوف یا کمزری کے بجائے مزید ایمانی قوت پیدا ہوئی اور آنحضرت ﷺ اور صحا بہ (رض) نے فرمایا حسبنا اللہ ونعم الوکیل (ابن کثیر) بعض نے لکھا ہے کہ یہ آیت غزوہ بدر الصغری ٰ کے متعلق نازل ہوئی ہیں جس کا پس منظر یہ ہے کہ جنگ احد میں کے خاتمہ پر ابو سفیان نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر میں لڑائی ہوگی۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ منظور کرلو اور کہدو ان شا التہ عالی۔ جب اگلا سال آیا۔ ابو سفیان مکہ سے فوج لے کر نکلا جب مر نفہر ان میں پہنچا تو مرعوب ہوگیا۔ قحط سالی کا عذار کر کے مکہ کو لوٹنا چاہا اتفاق سے ابو نعیم بن مسعود الا سجعی سے ملا قات ہوگئی جو عمرہ کر کے واپس جا رہا تھا۔ اس کو کچھ انٹوں کا لالچ دے کہا کہ مدینہ پہنچ کر ہماری طرف سے خبر مشہور کردینا کہ وہ بہت بڑی جمیعت لے کر آرہے ہیں تاکہ مسلمان خوف زدہ ہوجائیں اور نکلنے کی جرات نہ کریں۔ چنانچہ اس نے مدینہ پہنچ کر اسی قسم کی افواہیں پھیلادیں کچھ مسلما نن مرعوب بھی ہوئے مگر آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی قس کھا کر فرمایا۔ میں ضرور جاوں گا خواہ مجھ اکیلے کو ہی جانا پڑے۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمت دی اور انہوں نے کہا اللہ ہی ہم کا کافی ہے آخر مسلمان وہاں پہنچے۔ بدرالصغریٰ (مابنی کنانتہ) میں بڑابازار لگتا تھا۔ تین روز رہ کر تجارت کے ذریعے خوب نفع کمایا اور صحیح سلامت مدینہ لوٹ آئے مشرکین بھی مرا الظہرن سے لوٹ گئے تھے انہوں ن اپنی اس مہم کا نام حبیش السو یق رکھا۔ (رازی۔ ابن کثیر )