الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ
جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی ان کے لئے بہت زیادہ اجر ہے (١)۔
ف 1 یہ حمر الا سد یعنی جنگ احد سے اگلے روز کا واقعہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے احد سے پلٹ کر جب مشرکین چند منزل دور چلے گئے تو آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے یہ کیا حماقت کی کہ مسلمانوں کی استیصال کئے بغیر واپس چلے آئے۔ چنانچہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ ادھر ّنحضرت ﷺ کی جب یہ اطلاع ملی تو آپ ﷺ نے اب تمام مسلمانوں کو جو جنگ احد میں شریک ہوئے تھے مشرکین کے تعاقب میں نکلنے کا حکم دیا تاکہ وہ واقعی پلٹ کر مدینہ پر حملہ نہ کردیں۔ اس وقت اگرچہ جنگ احد میں سے اکثر لوگ سخت زخمی اور تھکے ہوئے تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی تعمیل میں فورا نکل کھڑے ہوئے۔ جب مدینہ سے چند میل فاصلہ پر مقام حمرا الا سد ( جو مدینہ سے تقریبا آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے) پر پہنچے تو مشرکین کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی اور انہوں نے آپس میں کہا کہ اس مرتبہ تو واپس چلتے ہیں اگلے سال پھر آئیں گے۔ اس صورت حال کے پیش نظر نبی ﷺ بھی مدینہ واپس لے آئے۔ چانچہ آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور مسلمانوں کی بشارت دی (ابن کثیر) یہاں منھم میں لفظ من محض تبیین کے لیے ہے کیونکہ جن لوگوں نے اس مہم میں اللہ و رسول ﷺ کی دعوت پر کہی وہ سب ایسے ہی تھے۔ (الکشاف )