وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو (١) پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے (٢) اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو (٣) اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤)
ف 7 یعنی دونوں کو سمجھائو اور حق بات ماننے کے لئے کہو۔ یہ خطاب ان مسلمانوں سے ہے جو دونوں گروہوں میں شامل نہ ہوں۔ صحیحین میں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت ایک مرتبہ ایک گدھے پر سوار ہو کر انصار کی ایک مجلس میں گئے جس میں عبداللہ بن ابی منافق بھی تھا۔ وہ بدبخت کہنے لگا ذرا ہٹ کر بیٹھو مجھے تمہارے گدننے کی بدبو سے تکلف ہو رہی ہے۔ ای کانصاری کہنے لگا ” خ دا کی قسم ! آنحضرت کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ عبداللہ یہ سن کر غصہ میں آگیا اور دونوں طرف کے لوگ جھڑپوں، جوتوں اور گھونسوں سے باہم مار پٹائی کرنے لگے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) یہ حدیث مختلف الفاظ اور سیاق کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور ہے۔ ف 1 حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن انصاف کرنے والے عرش کی دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں غیروں اور اپنوں کے درمیان