سورة الفتح - آیت 26

إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

جب کہ (١) ان کافروں نے اپنے دلوں میں غیرت کو جگہ دی اور غیرت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (٢) اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رکھا (٣) اور وہ اس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 جاہلیت کی ضد سے مراد کفار مکہ کا یہ کہنا ہے کہ ان مسلمانوں نے ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کیا ہے اسلئے اگر وہ مکہ میں داخل ہوگئے چاہے عارضی طور پر عمرہ کرنے ہی کے لئے سہی، تو ہماری ناک کٹ جائیگی کیونکہ اردگرد کے تمام عرب قبائل کہیں گے کہ وہ ہمارے علی الرغم ہمارے گھر میں داخل ہوئے اس لئے لات و عزیٰ کی قسم ہم انہیں ہرگز عمرہ کرنے کی اجازت نہ دینگے۔ ف 10 یعنی انہیں صبر و وقار کی توفیق دی اس لئے وہ اللہ و رسولﷺ کے فیصلہ پر مطمئن ہوگئے۔ قریش کی جاہلانہ ضد پر مشتعل ہو کر آپے سے باہر نہ ہوئے۔ ف 11” پرہیزگاری کی بات“ سے مراد وہ بات ہے جس کا تقاضاپرہیز گاری ہے یعنی توحید کا اقرار یا صبر و تحمل اور وفائے عہد جو پرہیزگاری کا تقاضا ہے ۔ ف 12 کیونکہ وہ ایماندار تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت کے تربیت یافتہ۔