سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا
جب تم غنیمتیں لینے جانے لگو گے تو جھٹ سے یہ پیچھے چھوڑے ہوئے لوگ کہنے لگیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیجئے، (١) وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل دیں (٢) آپ کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالیٰ ہی فرما چکا ہے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چلو گے (٣) وہ اس کا جواب دیں گے (نہیں نہیں) بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو (٤) (اصل بات یہ ہے) کہ وہ لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہیں (٥)
ف 9 جب آنحضرت ﷺاور صحابہ کرام (رض)حدیبیہ سے واپس آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ خیبر فتح ہوگا اور اس کا مال غنیمت صرف ان لوگوں کو ملے گا جو صلح حدیبیہ میں آنحضرت کے ساتھ گئے تھے چنانچہ جب مسلمانوں نے خیبر کا رخ کیا تو یہ گنوار منافق بھی آ پہنچے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ ف 10 اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی یہ بات ہے کہ خیبر کے سفر میں صرف ان لوگوں کو ساتھ لیا جائے جو حدیبیہ گئےتھے اور بیعت رضوان میں شریک ہوئےتھے یا آیتİفَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّاĬ (توبہ 83) کی طرف اشارہ ہے مگر علمائے تفسیر نے پہلی تاویل کو زیادہ پسند فرمایا ہے۔ (قرطبی) ف 11 یعنی حسد کرتے ہوکہ غنیمت کے اموال میں ہمارا حصہ کیوں ہو۔ ف 12 جو مخلص مسلمانوں کو حسد کا طعنہ دیتے ہیں۔ حالانکہ جانتے ہیں کہ انہیں ہرگز دنیا کی طمع نہیں ہے اور یہ کہ خیبر کی طرف انہیں ان کا جذبہ جہاد لے جا رہا ہے نہ کہ محض مال غنیمت کا حصول۔