سورة الفتح - آیت 2

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تاکہ جو کچھ تیرے گناہ آگے ہوئے اور پیچھے سب کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے (١) اور تجھ پر اپنا احسان پورا کر دے (٢) اور تجھے سیدھی راہ چلائے (٣)۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5 اس فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ امام زہری کہتے ہیں، صلح حدیبیہ سے بڑی کوئی فتح نہیں ہوئی۔ شعبی کہتے ہیں کہ آنحضرت کو اس صلح سے جو کچھ ملا وہ کسی غزوہ میں نہیں ملا۔ حضرت برائن عازب کہتے ہیں :” تم لوگ فتح مکہ کو فتح سمجھتے ہو لیکن ہم اصل فتح بیعت رضوان کو سمجھتے ہیں جو حدیبیہ میں ہوئی۔“ (شو کانی بحوالہ صحیحین) ف 6 اس فتح میں آنحضرت سے ایسے کام ہوئے جو اللہ تعالیٰ کے نزیک بڑی قدر رکھتے تھے، اس لئے اس فتح میں آنحضرت کو مغفور ہونے کی خشوخبری سنائی گئی اور ہمیشہ کے لئے بالفرض اگر آپ سے کوئی لغزش سر زد ہو تو اسے معاف فرما دیا گیا۔ حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت اللہ تعالیٰ کی اس قدر عبادت کرنے کہ رات کی نماز میں کھڑے کھڑے پائوں پر ورم ہوجاتا۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے ہیں تو آپ عبادت میں اس قدر مشقت کیوں اٹھاتے ہیں فرمایا ” عائشہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (ابن کثیر) ف 7 نعمت (احسان) سے مراد وہ تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں ہیں جو آنحضرت کو حاصل تھیں جیسے یہاں دنیا میں دین کا قلبا اور آخرت میں مقام محمود ف 8 یہاں تک آپ دنیا سے رخصت ہو کر اس کی جناب میں پہنچ جائیں۔