سورة الجاثية - آیت 23

أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا آپ نے اسے بھی دیکھا ؟ جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور باوجود سمجھ بوجھ کے اللہ نے اسے گمراہ کردیا (١) ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر بھی پردہ ڈال دیا (٢) ہے اب ایسے شخص کو اللہ کے بعد کون ہدایت دے سکتا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 خواہش کو خدا بنا لینے سے مراد ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن جائے۔ جو دل میں آئے کر گزرے خواہ خدا کے قانون میں وہ حرام ہو … علوم ہوا کہ شخص کسی نہ کسی خدا کو پوجتا ہے اگر مالک حقیقی کا بندہ نہیں بنتا تو اپنی خواہش کا بندہ بن کر اس کی پوجا کرتا رہتا ہے۔ ف 2 یعنی جو شخص اپنے نفس کو اپنا خدا بنا لے اور کسی طرح سیدھی راہ پر آنے کے لئے تیار نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بھ اسے اس کی اختیار کردہ گمراہی میں بڑھتے رہنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ ” جیسا کہ اس کے علم میں تھا۔“ یعنی ازل سے خدا کے علم میں تھا کہ وہ راہ راست پر آنے والا نہیں ہے اور یہ بھی ترجمہ ہوسکتا ہے کہ ” علم ہوت یساقی اللہ نے اسے گمراہ کردیا۔“ یعنی وہ باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یہ پتھر بے جان ہیں اور یہ کہ خواہش نفس کی پیروی سراسر گمراہی ہے پھر بھی شرک سے باز نہیں آتا اور ان پتھروں اور مٹی کے ڈھیروں (قبروں) کی پوجا کرتا رہتا ہے۔ (ابن کثیر)