فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
(حضرت) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں (١) اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بیشک وہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
ف 6۔ یہ کلمات وہی ہی جن کا ذکر سورۃ اعراف (آیت :23) میں ہے یعنی ربنا ظلمنا بعض تابعین نے کچھ ادعیہ ماثورہ بھی نقل کی ہیں اور ثلقی کے معنی بذریعہ وحی یا الہام اخذ کرلینے کے ہیں۔ ف 7۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کی تو بہ قبول فرمائی۔ خالص توبہ کے لیے تین امور شرط ہیں علم، حال اور عمل، گناہ کے ضرر کے احساس کو علم کہا جاتا ہے اور اس احساس کے بعد دل میں نو ندامت پیدا ہوتی ہے اسے حال کہتے ہیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کہلا تا ہے اس جملہ معلوم ہو کہ گناہ کے اثرات لازمی اور طبعی نہیں جن کی لا محلا لہ سزا مل کر رہے گی کسی چیز کے مؤثر ہونے کا مدار اللہ تعالیٰ کے اختیار اور مشیت پر ہے۔ انسان کے تو بہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے گناہ کے اثر کو ختم کردیا ہے جاتا ہے، (رازی)