وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ
(یہ بھی وجہ تھی) کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو بالکل الگ کردے اور کافروں کو مٹا دے۔
ف 2 جنگ احد میں امسلمانوں کو سخت جانی نقصان پہنچا اور یہود ومنا فقین کے مطا عن مزید دل آزاری کا با عث بنے۔ منافق کہتے تھے کہ اگر آنحضرت ﷺ سچے نبی ہوتے تو مسلمان یہ نقصان اور بزمیت کی ذلت کیوں اٹھاتے وغیرہ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ فتح وشکست تو ادلتی بدلتی چیز ہے یہ حق ونا حق کا معیار نہیں ہے۔ آج اگر تم نے زخم کھا یا ہے تو کل وہ جنگ بدر میں تمہارے ہاتھوں اسی قسم کا زخم کھاچکے ہیں اور خود اس جنگ میں اتبدا ان کے بہت سے آدمی مارے جا چکے ہیں جیسا کہ اذتخسو نھم باذنہ سے معلوم ہوتا ہے۔ تمہارے شکست کھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایمان واخلاص اور کفر ونفاق میں تمیز ہوگئی مومن اور منافق الگ الگ ہو گے مومنوں کو شہادت نصیب ہوئی جو عند اللہ بہت بڑا شرف ہے ورنہ اس عارضی فتح کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں اور مشرکوں کو پسند کرتا ہے بلکہ فتح وشکست کے اس چکر سے مومنوں کو تمحیص اور کفار کی طاقت کو ختم کرنا مقصو ہے اس طرح کہ وہ اپنی عارضی فتح پر مغرورر ہو کر پھر لڑنے آئیں گے اور اس وقت ان کی وہ سرکوبی ہوگی کہ دوبارہ اس طرف رخ کرنے کا نام نہیں لے گے چنانچہ غزوہ احزاب کے موقع پر ایسا ہی ہوا کہ اس کے بعد کفا رن دفاعی جنگیں تو لڑی ہیں مگر خود حملہ کی جرات نہ کرسکے۔ (ماخوذ از کبیر وشوکانی وغیرہ)