وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ
اس طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے (١) تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کردیں اور جمع ہونے کے دن (٢) جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔
ف 12’’ أُمَّ الْقُرَى ‘‘کے لفظی معنی ہیں بستیوں کی ماں یا جڑ اور’’ گرد ‘‘سے مراد ساری دنیا ہے۔ مکہ کو أُمَّ الْقُرَى اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ روئے زمین کے تمام شہروں ( قریٰ) سے افضل و اشرف ہے۔ جیسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے بازار میں کھڑے ہو کر فرمایا : (وَاَللهِ إنّك لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ وَأَحَبّ أَرْضِ اللهِ إلَيّ) کہ اللہ کی قسم ! تو اللہ کی سب سے بہتر اور میری سب سے محبوب زمین ہے۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” بڑا گائوں پر فرمایا مکہ کو کہ سارے عرب کا مجمع وہاں ہوتا ہے اور ساری دنیا میں گھر الله کا وہاں ہے آس پاس اسکے اول عرب پھر ساری دنیا۔ ف 13 یعنی قیامت کے دن ( یوم الجمع) نتائج اعمال کے اعتبار سے ایک گروہ جنتی ہوگا اور دوسرا دوزخی یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں جنتی اور دوزخی لکھے جا چکے ہیں۔ ( ابن کثیر)۔