إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ
قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے (١) اور جو جو پھل اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے (٢) اور جس دن اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو بلا کر دریافت فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں، وہ جواب دیں گے کہ ہم نے تو تجھے کہہ سنایا کہ ہم میں سے تو کوئی اس کا گواہ نہیں (٣)۔
ف 1 یعنی قیامت کب آئے گی ؟ اسے صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کسی مخلوق کو اس کا علم نہیں ہے۔ روایات میں ہے کہ مشرکین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ” اگر تم محمدﷺ دعوائے نبوت میں سچے ہو تو بتائو قیامت کب آئے گی۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) مشہور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر قیامت کے بارے میں سوال کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا نیز دیکھئے اعراف آیت 187 (ابن کثیر) ف 2 مطلب یہ ہے کہ صرف قیامت کا علم ہی نہیں غیب کے متعلق جتنے بھی امور ہیں، ان سب کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا ولی کو صرف اسی حد تک امور غیبیہ کا علم ہوسکتا ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اسے خبر دی ہوتی ہے۔ ( مزید دیکھئے انعام 59 رعد 8) ف 3 کہ تیرا کوئی شریک ہے یا ہوسکتا ہے کیونکہ اب ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہم جو دوسروں کو دنیا میں تیرا شریک گردانتے رہے وہ سب غلط تھا۔ یہ بات مشرکین اس وقت کہیں گے جب ایک طرف تو عذاب دیکھیں گے اور دوسری طرف انہیں نظر آئے گا کہ ان کے معبودوں میں سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہا۔