وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر (وہ) بات نہ ہوتی (جو) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہوچکی ہے (١) تو ان کے درمیان (کبھی) کا فیصلہ ہوچکا ہوتا (٢) یہ لوگ تو اسکے بارے میں سخت بے چین کرنے والے شک میں ہیں (٣)
ف 7 اس سے مقصود بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ یعنی اس سے پہلے موسیٰ ( علیہ السلام) پر توارۃ نازل کی گئی مگر لوگوں نے اسے ماننے اور نہ ماننے میں اختلاف کیا۔ اسی طرح اگر یہ کفار مکہ قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں کبیدہ خاطر ہوتے ہیں۔ ( قرطبی) ف 8 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں، بات وہی نکل چکی کہ فیصلہ ہے آخرت میں ( موضح)