وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ
اور تم (اپنی بد اعمالیوں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی (١) ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس میں سے بہت سے اعمال سے اللہ بے خبر ہے۔ (٢)
ف ٥ یعنی دوسروں سے چھپتے تھے لیکن چونکہ انہیں یہ اندیشہ نہ تھا کہ خود ہمارے کان، آنکھیں اور چمڑے ہمارے خلاف گواہی دیں گے اس لئے ان سے چھپنے کی ضرورت نہ سمجھتے تھے۔ ف ٦” اس لئے خوب بے باکی سے گناہ کرتے رہتے تھے“۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ میں غلاف کعبہ کے پیچھے چھپا ہوا تھا کہ ایک قریشی اور دو ثقفی یا ایک ثقفی اور دو قریشی آئے اور آپس میں گفتگو کرنے لگے جسے میں سمجھ نہ سکا۔ پھر ایک کہنے لگا ” کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ ہماری یہ گفتگو سن رہا ہے ؟ دوسرا بولا ” اگر ہم بلند آواز سے گفتگو کریں تب تو وہ سنتا ہے، لیکن اگر ہماری آواز دھیمی ہو تو وہ نہیں سنتا۔ اس پر دوسروں نے کہا : ” اگر وہ یہ سنتا ہے تو سب کچھ سنتا ہے۔ میں نے ان کی اس گفتگو کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ( وما کنتم تسترون) سے ( من الخاسرین) تک یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ ( شوکانی)۔ حضرت معاویہ (رض) بن حیدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ” تم اس حال میں اپنے رب کے حضور پیش کئے جائو گے کہ تمہارے منہ پر ڈاٹ لگی ہوگ اور تمہارے خلاف سشب سے پہلے تمہاری رانیں اور تمہاری ہتھیلیاں گواہی دیں گی“۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( شوکانی)