حَتَّىٰ إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
یہاں تک کہ جب بالکل جہنم کے پاس آجائیں گے ان پر ان کے کان پر اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے اعمال کی گواہی دیں گی (١)
ف ١ یا ان کی مثلیں لگائی جائیں گی۔ یعنی ان کی ہر قسم کو الگ الگ جمع کیا جائے گا۔ لفظ ” یوزعون“ کے ” ا گلوں کا روکے جانا“ اور ” مثلیں بنایا جانا“ دونوں معنی صحیح ہیں۔ ( دیکھئے سورۃ نمل ١٧) ف ٢ یہ صورت حال ان منافقین اور کفار کو پیش آئے گی جو اپنے گناہوں کا اقبال کرنے سے انکار کریں گے، فرشتوں کی گواہی کو جھٹلائیں گے اور اپنے نامہ اعمال کی صحت کو تسلیم نہ کریں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ اچھاتم اپنی بکواس بند کرو، دیکھو خود تمہارے ہاتھ پائوں اور دوسرے اعضاء تمہارے خلاف کیا گواہی پیش کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ (رض) کی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک مسکرائے اور پھر فرمایا ” کہ کیا تمہیں ہے کہ میں کیوں مسکرایا“ ؟ ہم نے عرض کیا ” نہیں، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ فرمایا میں اس گفتگو سے فرمایا جو قیامت کے روز بندہ اپنے رب سے کرے گا، وہ کہے گا ” یا اللہ ! کیا تو نے ظلم سے مجھے پناہ نہیں دی“۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ” ہاں“ بندہ کہے گا ” تو نے اپنے خلاف صرف اس گواہ کی گواہی تسلیم کروں گا جو خود میرا ہو“۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” تیرے خلاف خود تیری اور تیرے فرشتوں کی گواہی کافی ہے۔ “۔ پھر اس کے منہ پر مہر کردی جائے گی اور اس کے ہاتھ پائوں کو حکم دیا جائے گا کہ گواہی پیش کرو۔ وہ اس کے کرتوتوں کی ساری روداد پیش کردیں گے۔ تب بندہ ان سے کہے گا ” جائو“ مجھ سے دور ہوجائو میں تو جو کرتا تھا تمہارے ہی بچانے کو کرتا تھا۔ ( ابن کثیر)۔