قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ
آپ کہہ دیجئے! کہ میں تم ہی جیسا انسان ہوں مجھ پر وحی نازل کی جاتی ہے (١) کہ تم سب کا معبود ایک اللہ ہی ہے سو تم اس کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو، اور ان مشرکوں کے لئے (بڑی ہی) خرابی ہے۔
ف ٣ یعنی میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں اور وحی کے ذریعہ تمہیں توحید کی طرف دعوت دیتا ہوں اور وہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے عقل انسانی سمجھنے سے قاصر ہو۔ میری دعوت میں کوئی ایسی چیز ہے۔ تفرقہ ڈالتی ہو بلکہ یہ تو قومی یک جہتی ہو ہم رنگی پیدا کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔ ف ٤” لہٰذا اسی کو پکارو اور اسی سے حاجتیں طلب کرو“۔ ف ٥” زکوٰۃ“ کے لفظی معنی ” پاکیزگی“ کے ہیں اور صدقہ کو زکوٰۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس سے آدمی کا مال پاک ہوجاتا ہے۔ یہ آیت چونکہ مکی ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت مدینہ میں ہوئی۔ اس لئے یہاں زکوٰۃ سے مراد صدقہ و خیرات بھی لیا گیا ہے اور اقرار توحید کے ذریعہ نفس کی پاکیزگی بھی۔ ( ابن کثیر)